میری چھوٹی بہن جب بھی کالج سے آتی تو فورا کمرے میں چلی جاتی اور کمرہ بند کر لیتی

میری چھوٹی بہن جب بھی کالج سے آتی روتی ہوئی کمرے میں چلی جاتی کسی کو کچھ نہ بتاتی مجھے بہت عجیب لگتا وہ سکی وہ کچھ بھی نہ بتاتی کے اس سے کیا ہوا ہے وہ گھبر اجاتی کچھ بھی نہ بتاتی ایک دن میں اپنی چھوٹی بہن کے پیچھے اس کے کالج گئی جب میں کالج گئی تو وہاں اپنی بہن کو دیکھ کر میری جان نکل

گئی میری بہن تو وہاں پر پڑھنے کے بجائے۔۔۔۔۔

میر انام حریم ہے میری عمر بائیس سال ہے ہم دو بہنیں تھیں اماں کی وفات کے بعد ابا نے دوسری شادی کر لی تھی مگر ابا کی دوسری بیوی میں سے کوئی اولاد نہ ہوئی مگر ہم بہنیں جیسے جیسے بڑی ہوتی گئیں ہماری اماں کو نہ جانے ہم سے کیوں نفرت ہوتی گئی کبھی انھوں نے ہم سے پیار سے بات نہیں کی

تھی جب بھی بولتی غصہ میں ہی بولتی تھیں میں نے دس تک

پڑھا آگے میں نے پڑھائی چھوڑ دیں کیونکہ اماں ہر وقت کاموں پر لگائی رکھتی تھیں اس وجہ سے میں نے پڑھائی چھوڑ دی تھی گھر کے کام کرتی تھی مگر میں اپنی چھوٹی بہن کا بہت خیال رکھتی تھی کبھی اماں کو اس پر ہاتھ نہیں اٹھانے دیا تھا وہ مجھے بہت پیاری تھی جب اس کا میٹرک ہو گیا تو اماں نے کہا کے وہ اگے نہیں پڑھے گی مگر میں نے ابا کو کہا کے میں کام کر

لوں گی سب کر لوں گی مگر میری چھوٹی بہن پڑھائی نہیں چھوڑے گی پہلے تو ابا نہ مانے مگر پھر میں نے آخر منا ہی لیا اور اماں نے ہی جا کر اس کا داخلہ کروایا میں بہت خوش تھی اماں کا اس کے ساتھ کچھ رویہ بھی ٹھیک ہو رہا تھا مگر مجھے ایک بات بہت عجیب لگتی تھی اماں اس کے ساتھ ٹھیک ہو رہی تھیں وہ بجائے خوش ہونے کے دن بدن اداس ہوتی جارہی تھی نہ

جانے اس سے کیا ہوتا جارل رہا تھا میں بہت پریشان رہتی تھی اس کی وجہ سے ایک رات میری اچانک آنکھ کھل گئی میں نے کب دیکھا تو میری چھوٹی بہن اماں کے کمرے میں سے نکل رہی تھی میں نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا اور پوچھا وہ اماں کے کمرے میں کیا کر رہی تھی مگر اس نے کہا کچھ نہیں یانی رکھنے آئی تھی مگر اس کی شکل بتا رہی تھی وہ مجھ سے کچھ

چھپا رہی ہے مگر کیا چھپا رہی ہے اس بات کا مجھے نہ پتہ چلا میں نے گہری سانس لی اور اس سے کہا کے جا کر سو جاؤ کل کالج بھی جانا ہے کالج کے نام پر وہ گھبر آگئی اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے میں نے حیرت سے پوچھا کے کیا ہوا ہے مگر وہ کہنے لگی کچھ نہیں ہوا میں نے بھی مزید کچھ نہ پوچھا وہ اپنے کمرے میں چلی گئی اس کے جانے کے بعد میں اماں کے کمرے

کی طرف گئی تو اماں سو رہی تھیں اور وہاں پر کوئی پانی نہیں پڑا ہو ا تھا مجھے اپنی بہن پر شک ہونے لگا کچھ تو نگا جو وہ مجھ سے چھپا رہی تھی میں نے گہری سانس لی۔ اگلے دن صبح کے وقت وہ ضد لگا کر بیٹھی ہوئی تھی کے اس سے کالج نہیں جانا اور مجھے غصہ آرہا تھاس کی وجہ سے میں نے اماں ابا کیا کتنی باتیں سنی تھیں اور اس سے کالج میں داخل کروایا اتھا مگر وہ ایسے کر رہی

تھی اماں نے اس سے ایک دم سے غصہ میں کاج جانے کا کہا تو وہ جلدی سے اٹھ کر تیار ہونے چلی گئی ضرور اماں کے اور اس کے درمیان میں کوئی بات چل رہی تھی جس وجہ سے وہ ایسے کر رہی تھیں وہ جیسے ہی گئیں میں نے اماں سے پوچھنے کی کوشش کی مگر انھوں نے کچھ نہ بتایا۔ جب میری چھوٹی بہن کالج سے آئی تو سیدھا اپنے کمرے میں چلی گئی میں نے اس

سے جاتا ہوا دیکھا تو اس کے پیچھے چلی گئی وہاں جا کر اس سے پوچھا کے کیا ہوا ہے مگر وہ رونے لگ گئی اور مجھے کچھ نہ بتایا مجھے تو غصہ آگیا ہے ایسے رورہی تھی اور کچھ بتا بھی نہیں رہی تھی۔ اس دن کے بعد اس کا روز کا معمول بن گیا وہ جب بھی کالج سے آتی کبھی تو جاتی ہی نہیں تھی اس سے زبر دستی بھیجتی تھیں اماں لیکن مجھے یہ بھی سوچ کر حیرت ہوتی کے اماں تو

اس سے پڑھانا ہی نہیں چاہتی تھیں اور اب وہ کہہ رہی تھیں کے اس سے کالج نہیں جانا تو اماں زبر دستی بھیج رہی تھیں دال میں کچھ تو کالا تھا یا پھر ساری ہی دال کالی تھی کچھ تو تھا وہ کالج سے آکر رونے کیوں لگ جاتی تھی آج بھی مجھے بہت حیرت ہوئی تھی جب وہ کالج سے آئی تو اس کی آنکھوں میں آنسو تھے اچانک میری نظر اس کی قمیض پر گئی تو مجھے جھٹکا لگا اس کی

قمیض پر کیچڑ سا لگا ہوا تھا میں نے پوچھا تو وہ گھبراگئی اور کہنے لگی کہیں سے لگ گیا ہو گا وہ جب سے کالج گئی تھی مجھے ایک بات بھی ساتھ نہیں لے کر گئی تھی جب میں اس کے ساتھ جانے کی بات کرتی تو وہ گھبر اجاتی اور کہتی آپ وہ ساتھ نہیں لے جاؤں گی مگر آج میں جانا چاہتی تھی جیسے ہی وہ کالج کے لیے نکلی میں چھپ کر اس کے پیچھے نکل گئی جب وہ کالج

میں داخل ہوئی تو میں بھی پیچھے چلی گئی وہ کالج کے پیچھے والی سائیڈ پر جارہی تھی میں حیران تھی مگر جب جب میں اس کے پیچھے گئی میری جان نکل گئی وہاں پر وہ پڑھنے کے بجائے نوکروں والے کام کرنے لگ پڑی تھی میں غصہ میں اس سے گھر کے آئی اور پوچھا یہ سب کچھ کیا ہے وہ کہنے لگی اماں نے مجھے وہاں داخلہ نہیں لے دیا تھا بلکہ وہاں صفائی کرنے کی

نوکری لے دی تھی گھر سے یونیفارم ڈال کر بھیجتی اور وہاں جا کر کام کرتی کپڑے بدل کر تنخواہ جو ملتی وہ اماں لے لیتیں اس کی بات سن کر میرے تو تن بدن میں آگ لگ گئی میں غصہ میں اماں کے پاس گئی اور اماں کو کہا کے اگر کوئی ان کی بیٹی کے ساتھ ایسے کرتی تو ان پر کیا گزرتی میں نے اماں کو خوب باتیں سنائیں اماں بہت شرمندہ ہو ئیں اور معافی بھی مانگی مجھ سے

بہن سے بھی اور ہم میری بہن کو ایڈمیشن بھی لے کر دے دیا اس کے بعد اماں نے ہمارے ساتھ کوئی .زیادتی نہ کئ