تمھیں کتنی بار بتا چکی ہوں۔ میں بچہ پیدا نہیں کروں گی۔ عزت نے فخر کے برابر کھڑے ہوتے ہوئے بتایا۔ میں نے کبھی بچوں کی بات کی تمھارے ساتھ فخر نے دھیمے لہجے میں پوچھا تھا۔ تمھاری امی تو کرتی ہیں نا آج اُن کا فون آیا تھا کہنے لگیں فخر ہمارا اکلوتا بیٹا ہے۔ ہم چاہتے ہیں اُس کے ڈھیر سارے بچے ہوں۔ میں نے گائوں میں ایک لڑکی دیکھی ہے۔ وہ ہمارے ہی پاس رہے گی۔ فخر کو دوسری شادی کی اجازت دے دو بیٹی تو دے دو نا اجازت فخر نے مذاق کے انداز میں کہا۔
وہی شادی پہ شادی ایک شادی سے تم مردوں کا پیٹ ہی نہیں بھرتا۔ جس مرد کے پاس چار پیسے ہوتے ہیں وہ عیاشی کے لیے تین چار شادیاں کر لیتا ہے۔ عزت نے کھنکتی آواز میں کہا۔فخر نے بڑی اپنائیت سے عزت کے شانے پر ہاتھ رکھا پھر ہولے سے کہنے لگا جاگیر دار تو تمھارے پاپا ہیں میں تو کاشت کار کا بیٹا ہوں میری سات پشتوں میں کسی مرد نے دوسری شادی نہیں کی ہم عیاشی کے لیے نہیں گھر بسانے کے لیے شادی کرتے ہیں۔ فخر کی بات سنتے ہی عزت کا چہرہ مزید لال ہو گیا، وہ جلالی انداز میں بولی تم مجھے طعنے دو گے اب تم سے شادی کرنا میری زندگی کی سب سے بڑی بھول تھی۔ عزت دروازے کو زور سے مارتے ہوئے بیڈروم سے چلی گئی۔گاڑی کی آواز پر فخر نے بیڈروم کی کھڑکی کا پردہ پیچھے کرتے ہوئے دیکھا۔ عزت کی گاڑی بیرونی گیٹ سے باہر نکل رہی تھی۔ فخر نے موبائل اُٹھایا اور ایک نمبر ملا دیا۔تہذیب کے موبائل پر گھنٹی بجنے لگی۔ تہذیب نے کتاب سے نظریں ہٹا کر موبائل اُٹھایا۔جی فخر بیٹا تہذیب نے محبت سے کہا تھا۔ آنٹی وہ آپ کی طرف آ رہی ہے۔ فخر نے بتایا آج کس بات پر جھگڑا ہوا ہے تہذیب نے پوچھا۔
اکثر تو وہ بغیر بات کے ہی جھگڑ لیتی ہے۔ آج گاؤں سے امی کا فون آیا تھافخر کے بتانے سے پہلے ہی تہذیب نے بول دیاامی نے کہا ہو گا تم دوسری شادی کر لو۔ فخر لمبی سانس بھرتے ہوئے بولاجی کوئی پریشانی نہیں میں سمجھائوں گی اُسےوہ سمجھتی ہی تو نہیں اُلٹا سمجھانے لگتی ہے اب مجھے بھی لگنے لگا ہے۔ عزت سے شادی کر کے شاید میں نے غلطی کی ہے۔ اُس وقت میں نے صرف اپنے بارے میں سوچا تھا۔ اپنے والدین کے بارے میں نہیں۔ پریشان لگ رہے ہو تہذیب نے بات کا رُخ بدلا۔ جی آنٹی آج کل بہت پریشان ہوں۔تہذیب نے فخر کی بات کاٹتے ہوئے یک لخت پوچھا کیا ہوا بیٹا خیریت تو ہے۔ ہونا کیا ہے آنٹی گائوں کے چوہدریوں کی غلامی سے جان چھڑانے کے لیے سی ایس ایس کیا فورس جوائن کرتے ہوئے سوچا تھا کسی غریب کو انصاف دلوائوں گا مگر یہ سسٹم تو میرے ساتھ ہی نا انصافی کر رہا ہے۔ اب کس سے پنگا لے لیا تم نے تہذیب نے فخر کے ذہنی دبائو کوبھانپتے ہوئے ہلکے پھلکے انداز میں پوچھا۔ ایس ایچ او کی غلطی پر بھی جج صاحب سرزنش میری کر دیتے ہیں مجھے سب سے زیادہ دکھ اُس وقت ہوتا ہے جب ایک اَن پڑھ، جاہل، سیاست دان، میری یا میرے ساتھیوں کی بے عزتی کر دیتا ہے ہم اس ملک کے قابل ترین لوگ ہیں، ہم ایسا سلوک تومستحق نہیں کرتے۔
فخر کے خاموش ہوتے ہی تہذیب بولی تم مجھے اُس جج کا نام بتائو میں مزاری صاحب سے ابھی بات کرتی ہوں۔ نہیں آنٹی جی آپ کو پتہ ہے مجھے یہ سب پسند نہیں ہے۔ میں اپنی محنت سے یہاں تک پہنچا ہوں۔ تم میری طرف آ جائو ڈنر اکٹھے کرتے ہیں۔ میں آئوں گا تو عزت کہے گی آگئے ہو میری شکایتیں لگانے۔ معافی آنٹی میں نہیں آ سکتا۔ ٹھیک ہے تو پھر میں ہی تمھاری طرف آ جاتی ہوں۔ تہذیب کے یہ کہنے پر فخر تھکے لہجے میں بولاآپ بھی نا آنٹی فریش ہو کر آتا ہوں۔ فخر نے فون بند کر دیا۔تہذیب نے اپنے خانسامہ کو اسٹڈی میں بلا کر چند ہدایات دیں۔ اُس کے بعد کچھ سوچتے ہوئے سگ۔ریٹ لگا لیا۔ سگ۔ریٹ کے ختم ہونے سے پہلے ہی عزت بھی آ ٹپکی اور آتے ہی اپنا فیصلہ سنا دیا میں فخر سے ڈیورس لینے لگی ہوں۔ تم بانجھ ہو اس لیے یا پھر کوئی تیسرا مل گیا ہے تہذیب نے سگ۔ریٹ کو ایش ٹرے میں مسلتے ہوئے کہا۔عزت نے تہذیب پر شکوے سے بھر پور نگاہ ڈالی۔
تہذیب معزز لہجے میں بولی بیٹھ جائو عزت بیٹھ گئی۔ چاہتی کیا ہو زندگی سےتہذیب کے سوال پر عزت آنکھیں مٹکاتے ہوئے سوچنے لگی۔ عقل سے جواب ملنے کے بعد عزت فٹ سے بولی آزادی کس سے تہذیب نے یکایک پوچھا۔ عزت ایک بار پھر سوچنے پر مجبور ہو گئی۔ جو سوچ میں ڈال دے نا تو وہ ضرورت ہوتی ہے اور نا ہی خواہش تہذیب کی بات کا جواب دینے کی بجائے، عزت نے بات کا رُخ ہی بدل دیا فخر کی ماں اُسے کہتی ہے دوسری شادی کر لی اُس نے کر لی کیا تہذیب نے پوچھا۔فخر کی ماں کو ڈھیر سارے بچے چاہییں۔ عزت نے تلخی سے بتایا۔ اُسے بتا دو کہ تم بانجھ ہو تہذیب نے مشورہ دیا۔ وہ مجھے چھوڑ دے گا۔ نہیں چھوڑے گا چاہے تم اُسے دوسری شادی کی اجازت دو یا نہ دووہ مجھے خوش نہیں رکھتا۔ تم خوش رہنا ہی نہیں چاہتی۔ آپ میری ماما ہیں یا اُس کی اِس وقت میں ماں کے ساتھ ساتھ ایک منصف بھی ہوں عزت فخر اب بھی سمجھ جائو۔ کیا سمجھانا چاہتی ہیں
مجھے اُسے اپنی زندگی کے دونوں راز بتا دو راز بتا دوں تاکہ وہ بات بات پر مجھے ذلیل کرتا رہے عزت نے چڑتے ہوئے کہا۔ ذلیل تو تم اُسے کر رہی ہو تہذیب اپنی ایزی چیئر سے اُٹھ کر عزت کے روبرو لیدر کے کالے صوفے پر آ بیٹھی۔ تم نے مجھ سے کئی بار پوچھا کہ میں نے تمھارے پاپا شاہ عالم مزاری سے شادی کیوں کی کیوں کی عزت نے بات کاٹتے ہوئے پوچھا۔ وہی تو بتانے لگی ہوں میں الحمرا میں تھیٹر کر رہی تھی مزاری صاحب نے مجھے دیکھا اور دیکھتے ہی رہ گئے۔ پلے کے اختتام پر ہماری ملاقات ہوئی۔ مزاری صاحب نے کہا میں شادی شدہ ہوں، اس کے باوجود آپ سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ مجھے اُن کا اِس طرح پرپوز کرنا ایک مذاق لگا میں نے بھی مذاق میں بول دیا حق مہر میں کیا دیں گے میں یہ بول کر وہاں سے آ گئی اگلے دن شام کے وقت ہمارے گھر مزاری صاحب کا منشی ایک خط اور تین فائلیں چھوڑ گیا یہ گھر اور گلبرگ کے دو پلازے مزاری صاحب نے میرے نام کر دیے تھ
خط میں لکھا تھایہ حق مہر نہیں ہے۔ پہلی ہی ملاقات میں مجھے بھی مزاری صاحب بہت اچھے لگے تھے اماں کو ساری بات بتائی تو وہ مجھے سمجھانے لگیںوہ تم سے دس بارہ سال بڑا ہونے کے ساتھ ساتھ شادی شدہ بھی ہے۔میں نے ایک شرط کے ساتھ مزاری صاحب سے شادی کرنے کا فیصلہ کر لیاوہ شرط کیا تھی عزت نے جلدی سے پوچھا۔ہماری شادی میں مزاری صاحب کے سارے خاندان کے ساتھ ساتھ اُن کی پہلی بیوی اور بچے بھی شرکت کریں، پھر ایسے ہی ہوا۔ میںنے مزاری صاحب کی پہلی بیوی اور بچوں کو دل سے قبول کیا اور انھوں نے مجھے۔ مرد کی ہوس ایک شادی سے کیوں نہیں پوری ہوتی عزت نے حقارت سے پوچھا۔ جبلت کو ہوس کا نام مت دو مرد کا دل ایک پر آ بھی جائے تو دوسری کو دیکھ کر مچل ضرور جاتا ہے۔ ایسے سمجھ لو کہ عورت مورتی ہے اور مرد پجاری اب آرتی تو پجاری ہی اُتارے گا، نا موتی تو نہیں سیدھی سی بات ہے مرد کی جبلت میں رنگین مزاجی ہے۔
عورت کی جبلت میں کیا ہے عزت نے سوال کیا۔ حیا اور ممتا عورت رنڈی ہی کیوں نہ ہو اُس کے اندر سے حیا اور ممتا کبھی نہیں مرتیں۔ عورت کو رنڈی بنانے والا بھی تو مرد ہی ہوتا ہے عزت نے تیز دھاری لہجے میں کہا۔ تہذیب ہلکا سا مسکرائی پھر ارد گرد دیکھا اُس کے سگ۔ریٹ، ایش ٹرے اور موبائل ایزی چیئر کے ساتھ سائیڈ ٹیبل پر پڑے ہوئے تھے۔ وہ اپنی جگہ سے اُٹھی اور سب کچھ اُٹھا لائی۔ صوفے پر بیٹھتے ہوئے اُس نے ایک نمبر ملایا۔ اسٹڈی میں ڈرنک دے جائو۔ چند منٹ بعد ملازمہ ایک ٹرولی پر وسکی، سوڈا، برف اور ڈرائی فروٹ سجا کر لے آئی۔ ملازمہ نے وہ ٹرولی صوفے پر بیٹھی ہوئی تہذیب کے برابر میں لا روکی اور خود مہذب کھڑی ہو گی۔ تم جائو میں بنا لوں گی۔ ملازمہ وہاں سے چلی گئی۔ تہذیب نے ایک گلاس میں سوڈا ڈالتے ہوئے پوچھاڈرنک بنائوں تمھارے لیے موڈ نہیں ہے عزت نے بتایا۔تہذیب نے اپنا پیگ بنایا پھر ڈرائی فروٹ والی ٹرے، عزت کو پیش کی۔
عزت نے اُس میں سے کاجو کے چند دانے اُٹھا لیے۔مزاری صاحب ش۔راب نہیں پیتے اور میں نے شادی سے پہلے ہی پینا شروع کر دی تھی شادی سے اگلے دن میں نے اُن سے ش۔راب، پینے کی فرمائش کی تو انھیں حیرت ہوئی وہ کہنے لگے دوسری شادی حلال ہے اور ش۔راب حرام۔ سگ۔ریٹ تو حرام نہیں ہے۔ میں نے جلدی سے بتایا۔ مزاری صاحب مسکرا دیے۔ پھر کہنے لگےمرجانا مگر میرا رقیب نا پیدا ہونے دینا رقیب مطلب عزت نے اُلجھتے ہوئے پوچھا۔ تہذیب نے عزت کو جواب دینے کی بجائے گلاس میں سے ایک گھونٹ پیا پھر دوسرا۔ آخری گھونٹ میں اُس نے اپنا سارا پیگ ختم کر کے خالی گلاس ٹرولی پر رکھ دیا پھر اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ وہ آنکھیں بند کیے ہوئے مسکرا رہی تھی۔آپ مسکرا کیوں رہی ہیں عزت نے حیرت سے پوچھا۔ سوچ رہی ہوں ش۔راب پی کے زبان پر اُس کا نام لانا چاہیے یا نہیں۔ اگلے ہی لمحے تہذیب نے انکھیں کھولتے ہوئے کہا کسی کتاب میں پڑھا تھا۔
جسم ناپاک بھی ہو پھر بھی دل اور زبان پاک ہی رہتے ہیں اس لیے لے لیتی ہوں اُس کا نام میرے مولا نے عورت میں برداشت کی طاقت مرد سے زیادہ رکھی ہے۔ وہ محبت میں ش۔راکت بھی برداشت کر لیتی ہے جبکہ مرد نہیںآپ کے مولا نے ساری آسانی تو مرد کو دے دی ہمارے حصے میں آئی تو صرف برداشت عزت نے شکایتی انداز میں کہا۔ تہذیب نے چند لمحے سوچا پھر سگ۔ریٹ لگا لیا۔ سگ۔ریٹ کے چند کش لگانے کے بعد وہ بولی اعلیٰ کام کے لیے اہل لوگوں کا انتخاب کیا جاتا ہے میرے مولا نے عورت کو تربیت کا موقع فراہم کیا اور مرد پر کفالت کی ذمہ داری ڈالی۔ میرے نزدیک تربیت اعلیٰ کام ہے کفالت کی نسبت مگر آج کی عورت تربیت کو چھوڑ کر کفالت کے پیچھے بھاگ رہی ہے۔ کفالت سے صرف گھربنتا ہے۔ تربیت اُسے سنوارتی، سجاتی اور قائم بھی رکھتی ہے۔ مجھ جیسی سمجھانے لگے تو تمھارے جیسی کہتی ہیں آپ پرانے عہد کی ہیں۔
آپ نے عورت کی آزادی کے لیے آخر کِیا ہی کیا ہے گھر کی چار دیواری اُنھیں پنجرہ لگتی ہے۔ کوئی بتائے اُنھیں یہ پنجرہ نہیں پناہ گاہ ہے۔ پناہ گاہوں میں کمزور رہتے ہیں۔ عزت نے خفگی سے بتایا۔ تہذیب نے اپنی انگلیوں میں آدھے سگ۔ریٹ کو ایش ٹرے میں مسلنے کے بعد کہاپناہ گاہ امن کی جگہ کو بھی کہتے ہیں عورت کو امن کی جگہ پر ٹھہرا کے۔ مرد سارا دن باہر کفالت کی جنگ لڑتا ہے۔ہم بھی یہ جنگ لڑ سکتی ہیں ہم نے تعلیم گھر بیٹھنے کے لیے تھوڑی حاصل کی ہے۔ عزت جذباتی ہوتے ہوئے بولی۔ تہذیب نے ہلکا سا قہقہہ لگایا پھر کہنے لگی نادان لڑکی جیون ساتھی سے مقابلہ کون کرتا ہے مرد چار قدم اُٹھائے تو عورت کو پانچ اُٹھانے پڑتے ہیں۔ وہ چار کے مقابلے میں چار اُٹھانے کی کوشش میں اپنا حسن کھو بیٹھے گا اپنا حسن کھو بیٹھے گی مطلب عزت نے سوالیہ انداز میں پوچھا۔ احساس، محبت، شائستگی، حیا، ممتا، نزاکت، یہی تو زن کا حسن ہے۔ مرد و زن تو سائیکل کے دو پہیوں جیسے ہیں۔
آگے پیچھے ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے۔ اب پچھلا پہیہ آگے والے سے ہی مقابلہ شروع کر دے تو سائیکل تو ٹوٹ گئی ناہم ہی پیچھے کیوں آگے کیوں نہیں عزت نے بڑے اعتماد سے کہا۔ محافظ ہی آگے چلتے ہیں، محبوب نہیں عورت محبوب اور مرد اُس کا محافظ ہے۔ تہذیب نے بڑے مزے سے بتایا۔ عزت نے کڑوے کسیلے لہجے میں پوچھا اُردو کا کون سا ناول پڑھ رہی ہیں آج کل عزت کے کڑوے کسیلے لہجے کے باوجود تہذیب میٹھے لہجے میں کندھے اُچکاتے ہوئے بولیاس نا چیز کے جملے ہیں۔ تھیٹر میں میرے لکھے ہوئے پر تالیاں بجتی ہیں یہاں زندگی بھرعورتوں کو گالیاں پڑتی ہیں میں چاہتی ہوں عورتیں برابری کے ساتھ زندگی کا سفر طے کریں۔ عزت نے جوش سے کہا۔ قدم برابر ہوں تو سفر رُک جاتا ہے۔ تہذیب کے کہتے ہی عزت نے پوچھ لیا آسان لفظوں میں بتائیں سائیکل والی مثال تمھیں پسند نہیں آئی تھی ایسے سمجھ لو مرد اور عورت ایک جسم کے دو پیر ہیں سفر شروع کرنے کے لیے ایک قدم تو پہلے اُٹھانا ہی پڑے گا۔
وہ پہلا قدم مرد کا ہے دوسرا قدم پیچھے نہیں ہے بلکہ اُس کا ہم قدم ہے۔ دوسرے قدم کے چلے بغیر جسم حرکت ہی نہیں کر سکتا۔ دونوں قدم ایک ساتھ اُٹھنے سے انسان گر جاتا ہے۔ کینگرو تو نہیں گرتا۔ عزت نے فٹ سے بتایا۔ تہذیب نے عزت کی طرف حیرت سے دیکھا، پھر ہونٹوں پر تبسم سجا کے کہنے لگی مولا نے کینگرو کا جسم ڈیزائن ہی ایسے کیا ہے۔ وہ چل نہیں سکتا صرف چھلانگ ہی لگا سکتا ہے۔اُسی نے مرد کو سخت اور عورت کو نازک بنایا ہے۔ میرے مولا نے مرد کا جسم آئوٹ ڈور کے لیے ڈیزائن کیا ہے اور عورت کا ان ڈور کے لیے مرد کا جسم باہر سے جتنا سخت ہے اندر سے اُتنا ہی نازک بھی ہے۔ عورت باہر سے جتنی نازک نظر آتی ہے اندر سے اُتنی ہی مضبوط ہے۔ تبھی تو یہ سخت نظر آنے والا گھر آتے ہی اس نازک کے کندھوں کا سہارا لیتا ہے۔ تم نے کبھی فخر کو اپنا کندھا پیش کیا تہذیب کے سوال پر عزت سوچ میں پڑ گئی۔ عورت بکھر جائے تو مرد اُسے سمیٹ نہیں سکتا بکھرے مرد کو عورت سمیٹ لیتی ہے
یہ کہنے کے بعد تہذیب اپنا پیگ بنانے لگی۔ عزت نے دیکھا تو فٹ سے پوچھ لیاآپ ش۔راب کیوں پیتی ہیں میں ش۔راب کو حلال ثابت کرنے کے لیے دلیلیں نہیں دیتی۔ یہ بھی نہیں کہوں گی۔ کسی کا حق کھانے سے ش۔راب پینا بہتر ہے۔ ش۔راب پینے کے بعد میں اپنے مولا کے سامنے شرمندہ شرمندہ سی رہتی ہوں۔ تہذیب نے عزت کی طرف دیکھے بغیر یہ ساری باتیں کہی تھیں۔خالی پیلی شرمندگی سے کام چل جائے گا کیا عزت نے تیکھے لہجے میں پوچھا۔ جو شرمندہ ہو اُسے ہی معافی ملتی ہے۔ تہذیب نے یقین کامل سے بتایا۔ آپ کے مولا نے ش۔راب کو بھی تو حرام قرار دے رکھا ہے۔ عزت نے ہلکے سے طنز کے ساتھ کہا۔ حرام کو حرام سمجھ کر پینا صرف گناہ ہے حلال پر اعتراض کرنا گناہِ عظیم تہذیب نے اپنی رائے دینے کے بعد پھر سے ش۔راب کا ایک گھونٹ پیا تھا۔ میں سمجھی نہیں عزت نے اطلاع دی۔ ہمیں جب کوئی سمجھاتا ہے، تو ہم بات سمجھنے کی بجائے، سمجھانے والے کی ذات میں برائیاں ڈھونڈنے لگتے ہیں۔
تم بھی وہیں کر رہی ہو میں نے آج تک مولا کے کسی حکم پر سوال نہیں اُٹھایا حلال حرام پر اعتراض نہیں کیا مولا کی جو بات سمجھ نہیں آئی اُس پر غور و فکر کیا اور اُسے سمجھنے کی کوشش کی میں نے کون سا اعتراض کیا عزت نے فوراً پوچھا۔ ابھی چند دن پہلے ہی تم نے کہا تھا مرد کو چار شادیوں کی اجازت، اللہ کو نہیں دینی چاہیے تھی۔ بچے بھی مردوں کو ہی پیدا کرنے چاہیے یہ کفریہ جملے ہیں عزت فخر آپ نے تو ماما تبلیغ ہی شروع کر دی ہے۔ عزت بے زار ہوتے ہوئے بولی۔ اگر میرے ملک کی مائیں اپنے بچوں کی صحیح تربیت کرتیں تو بے چارے تبلیغ والوں کو اتنی محنت تو نہ کرنی پڑتی۔ میں جا رہی ہوں۔ عزت اپنی جگہ سے اُٹھتے ہوئے بولی۔ تہذیب نے اُس کا ہاتھ تھامنے کے بعد چوم لیا، پھر محبت سے کہنے لگی بیٹھ جائو عزت بیٹھ گئی۔
میں نے تمھیں باہر سے اعلیٰ تعلیم تو دلوائی مگر تمھاری تربیت نہیں کر سکی فخر کے ماں نے اُس کی بڑی اچھی تربیت کی ہے اُس اَن پڑھ نے عزت نے احتجاجی لہجے میں پوچھا۔ ہاں اُس اَن پڑھ کا بیٹا میری بیٹی کے سارے حقوق پورے کرتا ہے اور اس پڑھی لکھی ماں کی اعلیٰ تعلیم یافتہ بیٹی اُسے ذلیل کرتی ہے ما ما آپ گھما پھرا کر پھر اُسی طرف آگئی ہیں عزت نے اُکتائے ہوئے انداز میں کہا۔ آج ختم کرتے ہیں اس بحث کو تم بتائو تمھیں فخر سے پرابلم کیا ہے۔ تہذیب نے بڑی سنجیدگی سے پوچھا۔ عزت سوچنے لگی۔ عزت نے کچھ نا بتایا تو تہذیب کہنے لگی تم نے کہا میں نے خواتین کے حقوق کے لیے این جی او بنانی ہے۔ فخر نے تمھارا ساتھ دیا۔ تم نے کہا میں لاہور چھوڑ کر قصور تمھارے ساتھ نہیں جا سکتی اُس نے تمھاری یہ بات بھی مان لی۔ ویک اینڈ پر وہ یہاں آتا ہے اور تم چھٹی لڑتے جھگڑتے گزار دیتی ہو۔ تمھیں پتہ ہے ایک ڈی پی او پر کتنا پریشر ہوتا ہے۔ جوڈیشری، میڈیا، سیاست دان سب کے سب اُسے رگڑا لگانے کے چکر میں ہوتے ہیں۔
بچے بڑوں کے کھلونے ہوتے ہیں۔ بچوں کے ساتھ کھیلنے سے بڑوں کو سکون ملتا ہے۔ بتائو مجھے، فخر اور اُس کے والدین کس کے ساتھ کھیلیں میں بانجھ ہوں، اس میں میرا کیا قصور ہے عزت نے نم لہجے میں پوچھا۔ تم اُس کی دوسری شادی کروا دو تہذیب کے مشورے پر عزت بھڑکتے ہوئے بولیدوسری شادی کرنے کے لیے اُسے مجھے طلاق دینی پڑے گی۔
وہ تو تم خود بھی لینا چاہتی ہو۔ تہذیب نے دھیمے لہجے میں بتایا۔ عزت کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ تہذیب کو کیا جواب دے پھر وہ یک دم بولی بہت اکیلی ہوں میں فخر تمھارا ساتھی بھی ہے اور تمھارے ساتھ بھی پاپا نے آپ کا اور میرا کیا ساتھ دیا عزت نے تلخی سے پوچھا۔ یہ سب کچھ اُنھیں کا دیا ہوا تو ہےماما میں دولت کی نہیں وقت کی بات کر رہی ہو عزت نے روکھے لہجے میں کہا تھا۔ میں ایک سال کی اور بھائی تین سال کا تھا۔ جب ہمارے ابا کا انتقال ہوا اماں کالج سے لوٹنے کے بعد پھر ایک اکیڈمی میں پڑھانے چلی جاتیں۔ میں نے تو کبھی نہیں کہا، میری ماں نے مجھے وقت نہیں دیا۔ وہ مجھے اور بھائی کو اعلیٰ تعلیم دلوانے کے لیے ہی تو سب کچھ کر رہی تھیں۔
بھائی باہر چلا گیا۔ میں تھیٹر کرنا چاہتی تھی۔ میں نے این سی اے میں داخلہ لے لیا۔ اماں نے کبھی اپنے فیصلے ہم پر مسلط نہیں کیے۔ بات وقت کی ہو رہی تھی جو سب تمھیں دیتے ہیں صرف تمھارے ہی پاس نہیں۔ تہذیب کے بتانے پر عزت نے حیرت سے اُسے دیکھا۔ میرے پاس وقت نہیں بچپن میں مہینوں پاپا نظر نہیں آتے تھے۔ تھوڑا سا ہوش سنبھالا تو آپ نے پڑھنے کے لیے باہر بھیج دیا پھر بھی میرے پاس وقت نہیں ہے عزت کے لہجے کے ساتھ ساتھ اُس کی آنکھوں میں بھی نمی اُمڈ آئی تھی۔ تہذیب نے اُس کے گال پر محبت سے ہاتھ رکھتے ہوئے کہامیری جان میں تو مانتی ہوں۔ چھوٹی سی عمر میں تمھیں باہر نہیں بھیجنا چاہیے تھا۔ ہماری غلطیوں کی سزا فخر کو تو نہ دو۔ سزا عزت نے تہذیب کا ہاتھ اپنے گال سے ہٹاتے ہوئے سوالیہ انداز میں کہا تھا۔ ہاں سزا تہذیب سنجیدگی سے بولی۔
کیا سزا دے رہی ہوں میں اُسےعزت نے اضطراب سے پوچھا۔ مزاری صاحب بہت اچھے انسان ہیں۔ شادی سے پہلے ہی انھوں نے مجھے بتا دیا تھا کہ وہ مہینے میں ایک آدھ بار ہی لاہور آتے ہیں۔ تمھارے ذہن میں نا جانے کیسے یہ بات بیٹھ گئی کہ تمھارے پاپا ہمارے ساتھ انصاف نہیں کرتے۔ وہ تمھیں اپنے دوسرے بچوں سے بڑھ کر چاہتے ہیں۔ مجھے تو اُن سے کوئی شکایت نہیں اکتیس سال ہو گئے آپ کی شادی کو حساب لگائیں ایک سال بھی انھوں نے آپ کے ساتھ نہیں گزارا ہو گا۔ عزت نے طعنہ دینے کے انداز میں کہا۔ عزت کی بات پر تہذیب کے ہونٹوں پرمسکراہٹ بکھر گئی۔ تہذیب نے اُسی مسکراہٹ کے ساتھ میٹھے لہجے میں پوچھا تم نے پانچ سالوں میں فخر کو کتنا وقت دیا ہے عزت نے آنکھیں گھماتے ہوئے تہذیب کی بات پر غور کیا۔ تم نے بھی شادی سے پہلے ضرور فخر سے کہا ہو گا۔ میں مہینے میں ایک آدھ دن ہی تمھیں دے پائوں گی۔ میں خواتین کی بہبود کے لیے کام کر رہی ہوں بزی ہوتی ہوں۔
عزت نے خشک لہجے میں بتایا۔ کتنے گھر ٹوٹنے سے بچائے ہیں اب تک آپ یہ کہنا چاہتی ہیں لڑکیاں پٹتی رہیں، مار کھاتی رہیں، بس طلاق نہ لیں۔ عزت نے دانت پیستے ہوئے کہا۔ طلاق آخری حل ہے، پہلا نہیں تم طلاق کی جگہ اخلاق سے بات کرو تو، کئی لڑکیوں کا گھر ٹوٹنے سے بچ جائے۔ جو درندے اپنی بیویوں کو مارتے ہیں۔ اُن سے اخلاق سے بات کروں عزت بھڑک گئی تھی۔ تم بھی فخر کی مار پیٹ کی وجہ سے ہی طلاق لینا چاہتی ہو، نا تہذیب نے سنجیدگی سے پوچھا۔ عزت کے پاس اس سوال کاکوئی جواب نہیں تھا۔ وہ اِس سوال پر شرمسار ہوئی تھی۔ تہذیب نے یہ دیکھا تو وہ نرم شگفتہ لہجے میں کہنے لگی میری جان معاشرہ ٹھیک کرنے سے پہلے، خود کو ٹھیک کرو کسی کو وقت دینے سے پہلے خود کو وقت دو۔ تہذیب کی بات کاٹتے ہوئے عزت نے پوچھاآپ دیتی ہیں خود کو وقت تہذیب مسکراتے ہوئے بولی ایسا ویسا صبح پارک میں جاتی ہوں۔ درختوں، پرندوں سے باتیں کرتی ہوں۔
واپسی پر کچھ دوست مل جاتے ہیں۔ ناشتہ کرنے کے بعد اسٹڈی میں کچھ پڑھتی ہوں، کچھ لکھتی ہوں۔ میوزک سنتی ہوں۔ شام کو کبھی فلم اور کبھی تھیٹر دیکھنے چلی جاتی ہوں۔ محبت کرنے والا شوہر ایک پیاری سی بیٹی ایک بیٹے کی کمی محسوس ہوتی تھی۔ وہ داماد نے پوری کر دی۔ مہینے میں ایک دو بار شوہر آ جاتا ہے۔ ہر ہفتے فخر سے ملاقات ہو جاتی ہے اور کیا چاہیے زندگی سےیہ سب کچھ بتانے کے بعد تہذیب کے چہرے پر اطمینان ہی اطمینان تھا۔ آپ اندر سے بھی اتنی ہی پر سکون ہیں، جتنی باہر سے نظر آتی ہیں۔ عزت نے رشک سے پوچھا۔ کوئی شک ہیں تمھیں پتہ نہیں عزت نے بے یقینی سے بتایا۔میں نے اپنی زندگی کے سارے فیصلے خود لیے مجھے اپنے کسی فیصلے پر کوئی پچھتاوا نہیں تہذیب نے یہ بتانے کے بعد جانچتی نظروں سے عزت کی طرف دیکھا پھر بولی ایک بات پوچھوں پوچھیں مامامیں نے اور تمھارے پاپا نے کبھی تمھارے کسی فیصلے میں رکاوٹ ڈالی ہو چند لمحے سوچنے کے بعد عزت نے بتایایاد نہیں پڑتا مجھے باپ، شوہر، بھائی، دوست، کسی بھی مرد سے تمھاری بنتی کیوں نہیں عزت کافی دیر سوچتی رہی۔
اُس کی عقل نے اُسے کوئی جواب نہیں دیا تو وہ بولی پتہ نہیں میں بتائوںلمبا چوڑا لیکچر مت دیجیے گا۔ عزت نے سنجیدگی سے کہا۔ تم ہر مرد کو ہرانا چاہتی ہو میرے مولا نے تمام جانداروں کو جوڑوں میں پیداکیا انسان کے علاوہ کوئی جاندار اپنے ساتھی سے مقابلہ نہیں کرتا ہمارے یہاں مرد و زن نے آپس میں ہی مقابلہ شروع کر رکھا ہے۔ جو عورت کے خلاف ہے وہ در اصل ماں کے خلاف ہے اور ماں کا مخالف دنیا اور آخرت میں رسوائی ہی اُٹھاتا ہے۔ میرے خیال میں جو عورت سے مقابلہ کرنے لگے وہ مرد ہی نہیں عورت کو بھی یہ بات سمجھ لینی چاہیے، میرے مولا نے پہلے آدم کو پیدا کیا پھر آدم کی پسلی سے حوا کو نکالا۔ عورت مرد کے جسم سے نکلی ہے، اس لیے اُس سے آگے کبھی نہیں نکل سکتی۔ نبوت کے لیے بھی میرے مولا نے مرد کا ہی انتخاب کیا تھا۔ عزت کی نگاہیں تہذیب کے چہرے پر مرکوز تھیں، جہاں پر سکون ہی سکون تھا۔ عزت ہلکا سا مسکرائی۔ عزت کو مسکراتے ہوئے دیکھ کر تہذیب بھی کھل اُٹھی۔ دونوں نے چند لمحے ایک دوسری کو بڑی محبت سے دیکھا پھر عزت آگے بڑھ کے تہذیب کے گلے لگ گئی۔ مامایوکے میں بھی ڈیورس میں نے نہیں لی تھی۔
میں اب بھی نہیں لینا چاہتی۔ تو پھر تم فخر کی دوسری شادی کروا دو۔ تہذیب نے مشورہ دیا۔ عزت کا سر تہذیب کے کندھے پر تھا۔ وہ آنکھیں بند کرتے ہوئے بولی چند باتوں سے میں ڈرتی ہوں ماما وہ کون سی تہذیب نے فٹ سے پوچھا۔مجھے ڈر ہے دوسری شادی کے بعد وہ مجھے چھوڑ دے گا۔ جس دن بھی اسے پتہ چلا کہ میں نے لندن میں بھی شادی کی تھی اور میں اُسے اُولاد بھی نہیں دے سکتی۔ وہ اُسی دن مجھے طلاق دے، دے گا۔ نہیں دوں گا فخر کی آواز پر عزت چونکتے ہوئے کھڑی ہو گئی تھی۔ تم کب آئے عزت نے بوکھلاہٹ میں پوچھا۔ جب تم آنٹی کے گلے لگی تھی۔ فخر کے بتانے پر عزت کا رنگ اُڑ گیا۔ یکایک پریشانی اُس کے چہرے پر اُمڈ آئی۔ اُس نے نظریں جھکا لیں۔ فخر نے اپنے ہاتھ سے عزت کی ٹھوڑی کو اوپر اُٹھایا اور محبت سے کہنے لگا ساتھی سے راز نہیں چھپاتے ہاں ساتھی کا راز ضرور چھپاتے ہیں
تمھارے دونوں راز ہماری شادی سے پہلے ہی مجھے بتا دیے گئے تھے۔ میں نے آج تک کسی کو نہیں بتائے۔ تمھیں کس نے بتایا تھا۔ عزت نے فکر مندی سے پوچھا۔ تہذیب کی طرف دیکھ کر فخر مسکرایا تھا۔ عزت نے پلٹ کر اپنی ماما کی طرف دیکھا۔ تہذیب کے ہونٹوں پر فاتحانہ مسکراہٹ تھی۔عزت نے فخر کے سینے پر محبت سے مکے مارتے ہوئے کہا پانچ سالوں سے سب کچھ جانتے ہو ایک بار بھی مجھے طعنہ نہیں دیا۔محبت کرتا ہوں تم سے فخر کے منہ سے یہ سنتے ہی عزت اُس سے لپٹ گئی۔ محبت ختم تو نہیں ہو گی نا عزت نے سر گوشی کے انداز میں فخر کے کان میں پوچھا۔ جو ختم ہو جائے وہ محبت نہیں ہوتی۔ پھر تم دوسری شادی کر سکتے ہو عزت نے ایک قدم پیچھے ہٹتے ہوئے کہا۔