سعودی عرب دن با دن گرین صحرا میں کیسے تبدیل ھوتا جا رہا ہے؟

سعودی عرب دن با دن گرین صحرا میں کیسے تبدیل ھوتا جا رہا ہے؟
عرب کے نقشے کو زوم کیا جائے تو ریگستان کے بیچوں بیچ بہت بڑے ایریاز میں گرین سرکلز نظر آتے ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس ویران اور بنجر ریگستان میں کچھ دلچسپ ہونے والا ہے

گوبی صحرا
یہ دنیا کا سب سے تیزی سے بڑھنے والا ریگستان ہے چین سے لے کر منگولیا تک پھیلا ہوا یہ ریگستان ہر سال چھ ہزار ہری بھری زمین نگل کر پیچھے بنجر زمین چھوڑ رہا ہے بلکہ دنیا میں جتنے بھی صحرا ہیں وہ تیزی سے پھیل رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ اتنے بڑے لینڈ ایریا میں اب چند ہزار لوگ ہی رہتے ہیں اور اس کی سب سے بڑی وجہ آب و ہوا کا تبدیل ہونا اور گلوبل وارمنگ ہے اس کی وجہ کسی حد تک ہم انسان خود ہیں درختوں کو اپنے مقصد کے لیے کاٹنا اور دھڑا دھڑ انڈسٹریز لگانا جس کی وجہ سے ماحول آلودہ ہو رہا ہے یہ انسان کی بنائی ایسی تباہی ہے جس کو صحرا بندی کہا جاتا ہے اتنی پھیل رہی ہے

زمین کا ٪25 حصہ بنجر زمین میں تبدیل ہو جائے گااور حالت اتنی خراب نہیں ہے اس چیز کو سعودی عرب نے جس طرح ہینڈل کیا ہے لاجواب ہے اور 1938 میں سعودی عرب کے ساتھ ساتھ جتنے بھی ممالک تھے وہ ترقی یافتہ نہیں تھے لیکن اس کے بعد جب یہاں سے تیل نکلا تو سعودی عرب کے ساتھ جتنے بھی عرب ممالک ہیں وہ ترقی یافتہ ہوتے گئے ساتھ ہی ساتھ بینک بیلنس میں اضافہ ہوتا گیا یہ آئل ہی ہے

جس کی وجہ سے سعودی عرب آج اتنا ترقی یافتہ ملک ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ سعودی عرب کی کمی نہیں ہے لیکن اس کے باوجود سعودی عرب کو مختلف ممالک سے سبزی پھل اور پانی خریدنے پڑتے ہیں پانی فرانس اٹلی اور کویت وغیرہ سے امپورٹ کرتا ہے سعودی عرب میں سب سے زیادہ کم بارش ہوتی ہے چار انچ بارش ہوتی ہے اور پانی ریڈ سی میں جا کر ضائع ہو جاتا ہے فیصلہ کیا کہ ضرورت کی اشیاء جیسے سردی اور پھل وغیرہ دوسرے ممالک سے امپورٹ کرنے کے بجائے اپنے ایگریکلچر کے نظام کو بہتر بنایا جائے تاکہ ضرورت کی اشیاء باہر کے ممالک سے امپورٹ کرنے کے بجائے اپنے ملک میں اگائی جائےاگر سعودی عرب کے نقشے کو دیکھا جائے تو سعودی عرب نے لاکھوں ایک صحراؤں کو سر سبز زمین میں بدل دیا ہے

سینٹر پیوٹ ایریگیشن کیا ہے
1948 میں، فرینک زیباچ نامی نیبراسکا کے ایک اختراعی کسان نے ایک نئی قسم کا چھڑکاؤ کا نظام تیار کیا، سینٹر پیوٹ، جسے اس نے 1952 میں پیٹنٹ کرایا۔ یہ آبپاشی انجینئرنگ کا ایک جدید طریقہ ہے جس کی خصوصیت ایک بڑے مکینیکل بازو سے ہوتی ہے جو ایک مقررہ مرکزی نقطہ کے گرد گھومتا ہے، پانی ڈالتا ہے۔ ایک سرکلر پیٹرن میں فصلیں. یہ بازو کے ساتھ منسلک چھڑکنے والوں کے نیٹ ورک کا استعمال کرتا ہے، جو نیچے کے پودوں کو ٹھیک ٹھیک پانی پہنچاتا ہے۔ یہ تکنیک بہت سے فوائد پیش کرتی ہے، جیسے پانی کی کارکردگی میں بہتری، مزدوروں کی کم ضرورت، اور فصل کی پیداوار میں اضافہ۔

منسلک پائپ کی لمبائی کے لحاظ سے یہ نظام سیدھے نظام میں 130 ایکڑ اور سوئنگ آرم سسٹم میں تقریباً 155 ایکڑ کا احاطہ کر سکتا ہے۔ یہ نظام کو بڑے پیمانے پر زراعت کے لیے موزوں بناتا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سعودی عرب کے پاس اتنا پانی آتا کہاں سے ہے 1970 میں سعودی عرب نے صحرا کے نیچے پانی ڈھونڈنا شروع کیا اتنا زیادہ تو نہیں ہے لیکن 480 کیوبک کلومیٹر پانی مل گیا تھا پروجیکٹ شروع کیا جا رہا ہے جس میں پہاڑوں کو سر سبز کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے

البیضہ پروجیکٹ
، دیہی، مغربی سعودی عرب میں، زمین کی بحالی، غربت کے خاتمے، اور ثقافتی ورثے کے تحفظ کا پروگرام ہے، جس کی بنیاد پرما کلچرل اور ہائیڈرولوجیکل ڈیزائن کے اصولوں پر ہے۔ مکہ کے صوبہ مکہ میں تقریباً 50 کلومیٹر (31 میل) جنوب میں واقع ہے، البیضاء ایک ایسا علاقہ ہے جس کی خصوصیت چٹانی، بنجر، کوہ حجاز کے دامن میں ہے۔ عرب قبائل اس خطے کے بڑے باشندے ہیں جس میں کے سامنے کو پہاڑوں کے اوپر ہی محفوظ کیا جاتا ہے اور جب بارش کا پانی بیڈ سی کے بجائے پہاڑوں کے محفوظ ہو جاتا ہے تو وہاں پر سر سبزہ ہونا شروع ہو جاتا ہے جو کہ پہاڑوں کو گرین کر رہا ہے

ونڈ فارمز اور سولر سسٹم بھی لگا رہا ہے سولر سسٹم کی وجہ سے بارش ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں اسی طریقے سے ہوا کو اوپر پھینکتی اس میں کوئی شک نہیں کہ سعودی عر ب صحرا کو سر سبز کچھ کرنے میں کامیاب ہو رہا ہے