میں_تم_اور_وہ
_قلم_انابیہ_خان
قسط_1
میں جو کہانی لکھنے جا رہی ہوں بالکل سچی ہے ، میں جانتی ہوں اس کہانی کو من گھڑت کہنے والے ڈھیروں لوگ ہوں گے ، اور مجھے یہ بھی معلوم ہے اس پر یقین کرنے والے بھی کافی افراد ہوں گے ، جو جنات کے وجود سے انکاری ہیں ، لگتا ہے انکی نگاہ قرآن و حدیث سے کوسوں دور ہے _ اگر جنات کا وجود سرے سے اس دنیا میں نہ ہوتا تو الله پاک قرآن مجید میں انکی تصدیق نہ کرتے ، سورہ جن نازل نہ ہوئی ہوتی قرآن پاک میں الله پاک کا ارشاد گرامی ہے
( اور ہم بھر دیں گے قیامت والے دن جہنم کی آگ کو انسانوں اور شیاطین جنات سے )
اس بات سے واضع ثبوت مل رہا ہے ، کہ جنات کا وجود واقعی میں اس دنیا میں موجود ہے ۔۔۔۔
پھر سورہ رحمن میں بھی الله پاک ارشاد فرماتا ہے ۔۔۔۔
( تم گروہ جن و انس میری کون کون سی بات کو جھٹلاوّ گے ) جہاں تک حدیث کا تعلق ہے تو اسکے لیے پورا دفتر درکار ہے ، اب نہ ماننے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ، انسان اشرف المخلوقات ہے ، ہم اس بات کے بھی انکاری نہیں ہیں تو انسانوں کے بعد جنات بھی سب سے بڑی ماورائی مخلوق ہے ، اس بات پر بھی ہمارا ایمان ہے ، میری اس کہانی کا ایک ایک لفظ سچا ہے آپ مانیں یا نہیں یہ آپ پر منحصر ہے ، یہ میری کزن کی حقیقی کہانی ہے آخر اسکے ساتھ ایسا کیا ہوا کہ اسکی پوری زندگی ہی بدل گئی ، میں نے اس کہانی میں اپنی کزن کا فرضی نام زویا رکھا ہے ، اب آپ زویا کی کہانی اسکی ہی زبانی سنئیے ۔۔۔۔
“مجھے ہر وقت ایسا لگتا تھا جیسے میرے ساتھ کوئی ہو ، مجھے چلتے ہوئے بھی کئی بار یہ احساس ہوتا تھا جیسے میرا کوئی پیچھا کر رہا ہو ، جب میں پیچھے مڑ کر دیکھتی تھی تو کوئی بھی نہیں ہوتا ، تب میں اسے اپنا وہم سمجھ کر آگے بڑھ جاتی تھی ، ایسا میرے ساتھ پیچھلے چھ 6 سالوں سے ہو رہا تھا ، میں جہاں بھی گرنے لگتی تو مجھے ایسا لگتا تھا جیسے کسی کے مضبوط ہاتھوں نے مجھے تھام لیا ہو ، مجھے گرنے سے بچا لیا ہو ، آپ یقین کریں ایک بار تو ایسا بھی ہوا تھا میرے ساتھ ، جس نے میرے رونگٹے کھڑے کر دیے تھے ، میں جلدی میں سڑک کراس کر رہی تھی اپنے سامنے آتی گاڑی بھی نہ دیکھ سکی ، اس گاڑی نے مجھے ایک زور دار ٹکر ماری میں نے ڈر کے مارے اپنی آنکھوں کے سامنے دونوں بازو رکھ دیئے تھے ، میری آنکھیں بند تھیں ، مگر جب کچھ لمحے گزر گئے اور مجھے کچھ بھی نہ ہوا ، تو میں نے اپنی دونوں آنکھیں کھول دیں تھیں ، تب میری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی تھی ، میں نے دیکھا وہ گاڑی ہی الٹی پڑی تھی بہت سارے لوگوں کا اس گاڑی کے پاس جمگھٹا لگا ہوا تھا ، اور میں وہیں ویسی کی ویسی کھڑی تھی مجھے ہلکی سی خراش تک نہ آئی تھی ، لیکن میں دعوے کے ساتھ کہتی ہوں ، اگر میری جگہ کوئی اور ہوتا تو اسکے لاش کے ٹکڑے اطراف بکھرے پڑے ہوتے ، کسی کا اتنا بھیانک ایکسیڈنٹ ہو ، اور وہ صاف بچ نکلے اور وہ بھی یوں کہ اسے معولی خراش تک نہ آئے تو اسے ہماری سوچ کے مطابق معجزہ ہی کہا جائے گا ، یا پھر کوئی ایسی طاقت جو مجھے بچا لیتی تھی ، ایک لڑکا آنکھوں میں حیرت لیے بھاگتا ہوا میرے پاس آیا ، اور مجھ سے کہنے لگا ۔
” آپی آپکا بچ جانا کسی معجزے سے کم نہیں ہے آپ اپنا صدقہ دیا کریں “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ کہہ کر اس نے اپنی جیب سے ایک ہزار کا نوٹ نکال کر مجھے دیتے ہوئے کہا ۔
” آپی یہ میری طرف سے کسی غریبوں میں بانٹ دینا ، میں نے اپنی زندگی میں پہلی بار ایسا دیکھا ہے ، کہ اتنے بڑے حادثے میں الله پاک کیسے اپنے خاص بندوں کو بچا لیتا ہے آپکو دیکھ کر اس بات کا بخوبی انداز ہو گیا ہے مجھے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے اسکا شکریہ ادا کر کے ہزار روپے لینے سے صاف انکار کر دیا تھا ، اور یہ کہہ کر اس کو مطمئن کر دیا تھا کہ میں خود بھی صدقہ و خیرات کرتی رہتی ہوں ، تب وہ صاحب بھی خاموشی سے اپنے پیسے واپس اپنی جیب میں رکھ کر چلا گیا تھا ۔۔۔۔۔
جب میں کولج جاتی ، اگر میں لڑکیوں سے بات کرتی تو ٹھیک لیکن اگر نوٹس مانگنے کے لیے مجھے لڑکوں سے بات کرنا پڑ جاتی تو لڑکے مجھ سے ڈر جاتے تھے ، اور مجھ سے دور بھاگنے لگتے ، میں خود بھی کافی حیران ہوتی تھی ، کہ آخر ایسا کیا ہے مجھ میں کہ ہر لڑکا مجھ سے بات کرتے ہوئے ڈر جاتا ہے _ پھر یہ بات رفتہ رفتہ ساری یونیورسٹی میں پھیل گئی تھی کہ زویا پر آسیب کا سایہ ہے ، یہ بات سننے کے بعد سب لڑکے اور لڑکیاں مجھ سے دور بھاگنے لگیں تھیں ، پھر باتوں ہی باتوں میں پرنسپل صاحب نے بھی مجھے کہنا شروع کر دیا کہ میں ان کی یونیورسٹی سے چلی جاوّں پر یہ کیسے ممکن تھا ؟ جو اساتذہ کل تک مجھے سراہتے نہیں تھکتے تھے وہ آج مجھے کہہ رہے ہیں کہ میں انکی یونیورسٹی کو چھوڑ دوں ، اس ساری صورتحال سے میں خود بھی بہت پریشان و عاجز آ گئی تھی ، آپکو ایک بات تو بتانا ہی بھول گئی تھی ، میں اپنے پورے کیریئر میں سکول سے کالج اور پھر کالج سے اب یونیورسٹی تک ہمیشہ ٹاپ کرتی چلی آئی تھی ، مجھے یاد نہیں کہ میں نے اپنی زندگی میں کبھی دوسری پوزیشن حاصل کی ہو ، سارے اساتذہ میری ذہانت کی داد دیتے نہیں تھکتے تھے ، مجھے سراہتے چلے آئے تھے ۔
اور اب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہی اساتذہ کہہ رہے تھے کہ میں یہ یونیورسٹی چھوڑ دوں _ یہ بات مجھے ہضم نہیں ہو رہی تھی کہ آخر ایسا کیا ہو گیا ہے مجھے ۔ ؟
میں کافی پریشان تھی ، ہر انسان اگر وہ مسلمان بھی ہو تو جب جب پریشان ہوتا ہے تو اسے رب کی یاد ستاتی ہے ۔ تب وہ اپنے مالک کی طرف رجوع کرتا ہے ، سو میں نے بھی ایسا کیا تھا ۔
” مما میں جمعہ کی نماز پڑھنے مسجد جا رہی ہوں”۔۔۔۔۔۔۔
میری بات سن کر میری ماں نے قدرے تعجب سے میری طرف دیکھا ، اور میرے بیڈ پر آ کر بیٹھی تھی ، میں ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑے ہو کر شیشے میں مما کے تاثرات دیکھ رہی تھی ۔
” بیٹا تم کچھ پریشان ہو “۔۔۔۔۔۔ ماں نے اتنی اچانک پوجھا کہ میں ایک پل کے لیے گڑبڑا سی گئی تھی ۔
” جی مما “۔۔۔۔۔۔ میں کافی لمحوں بعد مما کو جواب دینے کے قابل ہوئی تھی ۔۔
” کیا پریشانی ہے میری بچی کو کیا میں جان سکتی ہوں “۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ مما نے میری طرف دیکھ کر پوچھا ۔۔
” مما ابھی تو میں نماز پڑھنے جا رہی ہوں ، واپس آ کر آپکو سب کچھ بتاتی ہوں “۔۔۔۔۔۔۔۔ میری مما میری اس عادت سے بخوبی واقف تھی مجھے ذرا بھی کوئی پریشانی ہوتی تو میں فوراً مسجد کا رخ کیا کرتی تھی ، اس لیے ان کا حیران ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا ، آج تو ویسے بھی جمعہ تھا ، اور مما کو پتہ تھا میں ہر جمعہ کی نماز مسجد میں ہی ادا کیا کرتی تھی ، پھر میں نے جوگرز اتار کر کھلی چپل پہنتے ہوئے واش روم کا رخ کیا تھا ۔۔۔۔۔
مسجد میں آ کر جو دھچکا مجھے لگا وہ میرے لیے نا قابل یقین تھا ، میں مسجد کے اندر جانا چاہتی تھی مگر کوئی ایسی طاقت تھی جو مجھے مسجد سے باہر کی طرف دھکیل دیتی تھی مجھے مسجد کے اندر جانے سے روک دیتی تھی ، میں نے پوری کوشش کی مگر میں نا کام رہی ، میں پوری زندگی میں اتنی پریشان کبھی نہیں ہوئی جتنی آج ہوئی تھی کہ اللہ پاک مجھ سے اتنا ناراض ہو گیا ہے کہ مجھ سے سجدے کی توفیق ہی چھین لی اور مجھے مسجد آنے کی اجازت تک چھین لی تھی ، میں مسجد کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر رونے لگی ، ایک بابا جی میرے پاس آئے ، اور میرے رونے کی وجہ پوچھی تو میں نے ان کو سب کچھ بتا دیا تھا ، انہوں نے مجھ سے کہا
” اب تم جاو تمہیں مسجد میں جانے سے کوئی نہیں روکے گا، اٹھو اندر جاو “۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے حیرانی سے سر اٹھا کر بابا جی کو دیکھا ان کے چہرے پر نور ہی نور تھا ان کے چاروں طرف ایک روشنی کا ہالہ سا بنا ہوا تھا ، ان سے کچھ فاصلے پر ایک لڑکے کو کسی نے زنجیروں سے باندھ رکھا تھا ، وہ لڑکا سرخ آنکھوں کے ساتھ اپنا سر نفی میں ہلا رہا تھا اسکی آنکھوں میں چنگاریاں تھیں اسکے چاروں طرف ایک آگ کا ہالہ سا بنا ہوا تھا ۔
میں نے بہت ہی حیرت سے اسکی طرف دیکھا ، تو وہ برزگ فوراّ بول اٹھے
” تم جلدی سے مسجد کے اندر چلی جاو ، جلدی جاو اس سے پہلے کہ میں اسے روکنے سے بے بس ہو جاوّں “۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” ایسا کچھ نہ کرنا ورنہ اپنا نقصان کر بیٹھو گی “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس لڑکے نے غراتے ہوئے کہا ۔
” اگر تم مسجد گئی تو اپنا بہت بڑا خسارہ کر بیٹھو گی “۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برزگ چیخ اٹھا ۔۔۔
” اسکی بک بک مت سنو ، یہ کچھ بھی نہیں کر سکتا تم بس جلدی سے مسجد کے اندر جاو “۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے جلدی میں مسجد کی سیڑھیاں چڑھنی شروع کر دیں تھیں ، میں جیسے ہی مسجد کے اندر احاطے میں داخل ہوئی ، تو میں نے بے ساختہ پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ لڑکا مجھے خون رنگ آنکھوں سے گھور رہا تھا ، ساتھ ہی ساتھ خود کو بھی پورا زور لگا کر چھڑانے کی کوشش کر رہا تھا ۔۔۔
” میں مسجد کے اندر تو آ گئی پر میرا دل بہت خوفزدہ تھا ، ڈر کے مارے پسینے چھوٹنے لگے تھے ، میں نے نماز کس حال میں پڑھی مجھے یاد نہیں ، پڑھی بھی تھی یا نہیں ، یہ بھی معلوم نہ ہو سکا ، میں نماز ادا کر کے دعا کر رہی تھی کہ ایک آدمی میرے پاس آ کر بیٹھ گیا اور بہت ہی دھیمی آواز میں کہنے لگا تھا ،_
” جانے سے پہلے پیر مولانا طارق احمد سے ملتی جانا بیٹی ، وہ اندر بیٹھے آپ کا انتظار کر رہے ہیں”۔ ۔۔۔۔۔
میں نے سر اٹھا کر ان کی جانب دیکھا تو وہ ہلکا سا مسکرایا پھر اس نے میرے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا ۔۔
” بیٹی الله پاک پر بھروسہ رکھو ۔۔۔ سب ٹھیک ہو جائے گا ، بس الله پاک پر ہمیشہ کامل یقین رکھنا وہ سب کا اچھا چاہتا ہے ، اور اچھا ہی کرتا ہے ، اس بات کو اپنے دل و دماغ میں بیٹھا لو تو تمہارے لیے بھی اچھا ہی ہوگا “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کہتے ہی وہ اٹھ کر مسجد سے باہر چلا گیا تھا ، میرا ذہن ماوّف ہو چکا تھا سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سلب ہو چکی تھی ، مجھے یہ سب عیجب اور ڈرونا سا لگ رہا تھا ، پھر میں خاموشی سے اٹھ کر اندر جانے لگی _ ڈر اور خوف کی وجہ سے ایک بار پھر میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو مجھے ایک سایہ سا نظر آیا ، جب میں نے غور سے دیکھا تو وہ دھواں بن کر ہوا میں تحلیل ہو گیا تھا ۔۔
میں کمرے کے اندر آئی تو وہاں ایک الگ جہاں آباد تھا بہت سارے برزگ ہاتھوں میں موٹی موٹی تسبیاں لیے بیٹھے اللہ کو یاد کر رہے تھے ، اب مجھے نہیں پتہ کہ طارق احمد ان میں سے کون تھے ؟ ۔
میں نے سب پر ایک نظر ڈالی تو سامنے ہی ایک بڑی داڑھی والے برزگ بیٹھے مجھے اپنے ہاتھوں کے اشارے سے اپنے پاس بلا رہے تھے ۔
میں نے اپنی چادر کو ایک بار پھر سے اپنے سر پر اچھی طرح لپٹا ، پھر ان کے سامنے جا بیٹھی ، وہ کچھ دیر تسبیح کرتے رہے ، پھر انہوں نے وہ تسبیح اپنی آنکھوں پر لگاتے ہوئے اسے سائیڈ پر رکھ دی تھی ، وہ پوری طرح میری طرف متوجہ تھے ، پھر کچھ توقف کے بعد انہوں نے کہا ۔۔۔
” بیٹی وہ چھ سالوں سے تجھ سے محبت کرتا ہے ، وہ بڑی مشکلوں سے مانے گا “۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” بابا کون آپ کس کی بات کر رہے ہیں ” ؟۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے اپنا جھکا سر اٹھا کر بہت ہی حیرت سے پوچھا تھا ۔۔۔۔ ؟
” وہی جو ابھی بھی تمھارے ساتھ ہے اور وہ نہیں چاہتا کہ کوئی اور تجھے دیکھے ، یا تم سے بات کرے ، میں پھر بھی کوشش کروں گا اسے منانے کی ، وہ بڑا ہی ڈھیٹ ہے ، مجھے نہیں لگتا وہ میری بات مانے یا سنے گا ” ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ بہت آہستگی سے بتا رہے تھے ۔۔
میں نے کچھ حیرانی سے گردن گھما کر اپنے دائیں بائیں دیکھا تو مجھے کچھ بھی نظر نہیں آیا _
” تم اسے دیکھنا چاہتی ہو “۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟ بابا نے یوں مجھے دائیں بائیں دیکھتے پا کر سوال پوچھا ؟
میں نے سر اثبات میں ہلایا ۔۔۔۔
اب بابا نے منہ ہی منہ میں کچھ پڑھا پھر اپنے ہاتھوں میں پھونک مار کر زمین پر زور سے پٹخا تو کالے رنگ کا ایک بچھو زمین پر آ گرا تھا ، بابا نے منہ ہی منہ میں پھر سے کچھ پڑھ کر اس بچھو پر پھونک ماری تو وہ بچھو ایک لڑکے کی صورت اختیار کر گیا تھا ، اور یہ وہی لڑکا تھا ، جو مسجد سے باہر کھڑا مجھے مسجد کے اندر آنے سے روک رہا تھا ، ابھی بھی اسکی آنکھوں میں وہی چنگاریاں تھیں ۔۔۔
” تم یہاں کیا کر رہی ہو “۔۔۔۔۔۔۔ وہ لڑکا غراتے ہوئے میری طرف جھکا ، اسکی آنکھوں سے شعلے نکل رہے تھے ۔
” وہی رک جا “۔۔۔۔۔۔۔۔ بابا جی نے ہاتھوں کے اشارے سے اسے روکا ۔۔
” تم بیچ میں مت آوّ ، ورنہ اپنی بربادی کے تم خود ذمے دار ہو گے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے بابا جی کی طرف انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔۔۔
بابا جی نے اپنی تسبیح میرے ہاتھوں میں دی ۔
تو میں نے فوراً وہ تسبیح لے کر اپنی کلائی میں پہن لی تھی ، جس پر وہ غراتے ہوئے مجھ سے کچھ دور ہو گیا ۔۔۔
” تمہارا نام کیا ہے ؟
کیا چاہتے ہو ؟ کیوں اس بچی کو پریشان کر رہے
ہو ” ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بابا نے غصیلی آواز میں پوچھا ؟
” میرا نام اسد ہے ، اور محبت کرتا ہوں میں اس سے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” تم مسلمان ہو ، اور تمہارا کام نہیں ہے کسی مسلمان کو تنگ کرنا ، کیوں اس بے چاری کو تنگ کر رہے ہو “۔۔۔۔۔۔۔
” کیوں مسلمان محبت نہیں کرتے ، اور کب تنگ کیا ہے میں نے اسے ، پوچھو اس سے ، کبھی میں نے اسے تنگ کیا ، یا کبھی آیا ہوں میں اس کے سامنے “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ غراتے ہوئے کہہ رہا تھا ۔۔۔۔
” تم ایک جن ہو اور وہ ایک آدم زاد ہے ، تمہارا اور اسکا ملن نہیں ہو سکتا “۔۔۔۔۔۔۔۔
” یہ تمہاری سوچ ہے ، میری سوچ یہ نہیں ، میں اسے ہر صورت اپناوّں گا ، لے جاوّں گا میں اسے یہاں سے ، جس میں دم ہے مجھے روک کے دکھائے ، میں سب کو نیست و نابود کر دوں گا “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” تم کیا نیست و نابود کرو گے ، میں تمہیں اس قابل ہی نہیں چھوڑوں گا “۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بابا جی نے غصیلی آواز میں کہا ۔۔۔
” میں تمہیں بار بار کہہ رہا ہوں ، ہمارے بیچ میں مت آ ، مت آ ، ورنہ نقصان کوئی نہ کوئی اٹھائے گا ، اگر میں چاہوں تو تیرا ایک ایک راز یہیں پر کھول دوں ، تو کیا سمجھتا ہے تیرے راز کے بارے میں ، میں کچھ نہیں جانتا “۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” کک ۔۔ کون ۔۔۔ کون سا راز “۔؟
بابا نے ہکلاتے ہوئے اس سے پوچھا ۔۔۔
اس نے ایک زور دار قہقہہ لگایا ،
ہاہاہاہاہاہاہاہا ۔۔۔۔۔۔
” کیوں اب تیرے چہرے پہ کیوں پسینے آ رہے ہیں ، تیرا اس گلی کی کس کس لڑکی کے ساتھ چکر نہیں چل رہا ، تو یہ بتا ، میں سب جانتا ہوں “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے اپنی ہنسی کو بامشکل روکتے ہوئے کہا ۔۔
” سوچ اگر یہی سچ یہاں بیٹھے سب لوگ جان جائیں تو کیا عزت رہ جائے گی تیری ، اس لیے کہہ رہا ہوں میرے معاملے سے دور رہ تیری ہی بھلائی ہے اس میں ” ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ کہتے ہی وہ وہاں سے غائب ہو گیا تھا ۔۔۔۔
” بیٹی یہ بہت طاقتور ہے ، یہ کچھ بھی کر سکتا ہے ، کسی کے قابو میں نہیں آئے گا ، میں تمہیں کچھ وظائف بتا رہا ہوں ، جب تک تم پڑھو گی تو یہ تمہارے پاس نہیں آ سکے گا ، جس دن تم نہ پڑھ سکی تو یہ فوراً تیرے پاس آ جائے گا ، اور یہ کچھ بھی کر سکتا ہے ، اس کی آنکھوں میں میں نے تیرے لیے جنون دیکھا ہے ، یہ جنات ایسے کسی پر پاگل نہیں ہوتے ، اور جس پر مر مٹتے ہیں ، تو پھر یہ ان کو کبھی چھوڑتے ہی نہیں ہیں ، یہ جو میں نے تم کو تسبیح دی ہے ، اسے اپنے گلے میں ڈال لو ، ہر رات آیت الکرسی کا ورد کیا کرو ساتھ میں چاروں قل شریف بھی ضرور پڑھا کرو ، صبح شام کے ازکار کو بھی اپنے معمول کا حصہ بنا لو ، اور میں تمہیں ایک عامل بابا کا پتہ دیتا ہوں وہ ضرور تمہاری مدد کرے گا ، اسے کہنا کہ مولوی صاحب نے مجھے بھیجا ہے ، تب وہ تمھاری مدد ضرور کرے گا ” ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ یقین کریں اس وقت میری جو حالت تھی ، بدن کاٹو تو لہو نہیں ، یہ بات سنی ہوئی ضرور تھی ، سمجھ آج ہی آئی تھی ۔۔۔
” تم اب چلی جاو ، یہ تمہارا پیچھا ضرور کرے گا ، میں نے بہت ساری آیتیں تم پر دم کر دیں ہیں ، یہ پتہ لو اور جتنی جلدی ہو سکے اس عامل تک پہنچو ” ۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے سر اثبات میں ہلاتے ہوئے وہ کاغذ بابا سے لے کر اپنے پرس میں رکھ دیا تھا ، اور بابا سے اجازت لے کر مسجد سے باہر آ گئی تھی ، مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے وہ میرا پیچھا کر رہا ہو ، مجھے اس کا احساس ہو رہا تھا _ پھر ایک سنسان جگہ پر آخر وہ میرے سامنے آ ہی گیا تھا ۔۔۔
” میری بات سن “۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کی آواز میں اژدھوں کے جیسی پھنکار تھی ، اسکی آواز سن کر میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے تھے ۔
” تم کک کون ہو اور کیوں میرا پیچھا کر رہے ہو “۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے ڈرتے ہوئے بنا اسے دیکھے پوچھا ؟ خوف سے میرا برا حال تھا ۔ میرے ماتھے پر پسینے کے قطرے نمودار ہونے شروع ہو گئے تھے ، سردی کے باوجود بھی پسینہ آ رہا تھا ، میرے دل کی دھڑکن بے ترتیب تھی ، میں نے دل ہی دل میں آیت الکرسی پڑھنی شروع کر دی تھی جو جو آیتیں مجھے یاد آئیں میں ان کو بھی ہلکی اونچی آواز میں پڑھنے لگیں ۔
” تم جس رہ پر چل رہی ہو اس رہ سے ہٹ جاوّ نہیں تو بہت پچھتاوّ گی ، تم نے میری محبت میرا جنون دیکھا ہے ، میری نفرت نہیں دیکھی ، جس دن تم نے میری نفرت دیکھی تو تم اس دن سر پکڑ کر رووّں گی ، میری نفرت سہہ نہیں پاوّ گی “۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے انتہائی کرخت لہجے میں کہا ، اسکی آواز میں بادلوں گڑگڑاہٹ تھی ۔۔
میں ابھی بھی اسکی طرف پشت کیے کھڑی تھی ، آپ یقین کریں میری ٹانگوں میں کھڑے ہونے کی بھی سکت باقی نہیں بچی تھی ، تب ہی میں زمین پر جا گری تو وہ فوراً میرے سامنے کچھ فاصلے پر آیا اور کہا ۔۔
” کتنی بار تم سے کہوں سنبھل کر چلا کرو ۔ اب زیادہ چوٹ تو نہیں لگی تمھیں ۔۔۔۔