درج ذیل حدیث مے مطابق سات جگہوں پر نماز پڑھنا منع ہے۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم نَهَی أنْ يُصَلَّی فِي سَبْعَةِ مَوَاطِنَ : فِي الْمَزْبَلَةِ، وَالْمَجْزَرَةِ، وَالْمَقْبَرَةِ، وَقَارِعَةِ الطَّرِيْقِ، وَفِي الْحَمَّامِ، وَفِیْ مَعَاطِنِ الإِبِلِ، وَفَوْقَ ظَهْرِ بَيْتِ اﷲِ.
ترمذی، السنن، أبواب الصلاة، باب ما جاء فی کراهية ما يصلی إليه وفيه، 1 : 375، رقم : 346
’’بے شک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سات جگہوں پر نماز پڑھنے سے منع فرمایا : (1) جہاں گوبر یعنی کوڑا کرکٹ ڈالتے ہیں، (2) قصاب خانہ میں (جہاں جانوروں کو ذبح کرتے ہیں)، (3) قبرستان میں، (4) چلتے راستہ میں، (5) حمام میں (نہانے کی جگہ)، (6) اونٹوں کے باڑے میں، (7) بیت اﷲ کی چھت پر۔‘‘
نیند کے غلبہ کے وقت نماز پڑھنا
مندرجہ ذیل حدیث کے حوالے سے درج ذیل سوالات کے ضمن میں براہ کرم راہنمائی فرما دیجیئے:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا (بروایت حضرت انس بن مالک) تم میں سے جب کسی کو نماز پڑھتے پڑھتے نیند کا غلبہ ہونے لگے تو اسے چاہیے کہ سو جائے یہاں تک کہ (نیند کا خمار کچھ نکل جائے اور) وہ یہ سمجھ سکے کہ میں کیا پڑھ رہا ہوں۔ (صحیح بخاری، سنن النسائی)
کیا مندرجہ بالا حدیث کی اسنادی حیثیت درست ہے؟ اور کیا نیند کو نماز پر فوقیت دینا شرعا درست ہے؟ اور کیا نیند کے غلبے کے تحت فجرکی نماز یا دیگر نمازوں کو مؤخر کرنا اور آخری وقت میں پڑھنا درست ہے؟ نیند کے غلبے کی وجہ سے باجماعت نماز کو چھوڑنا، کیا یہ شرعا درست ہے؟ جزاکم اللہ خیرا
الجواب باسم ملهم الصواب
سوال میں ذکر کردہ روایت صحیح بخاری میں ہے، جس کے الفاظ یہ ہیں:
عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ: إِذَا نَعَسَ أَحَدُكُمْ فِي الصَّلاَةِ فَلْيَنَمْ حَتَّى يَعْلَمَ مَا يَقْرَأُ. (صحیح البخاری، کتاب الوضوء، باب الوضوء من النوم)
ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کسی کو نماز میں نیند آنے لگے تو اسے چاہیے کہ سو جائے یہاں تک کہ (نیند کا خمار زائل ہونے پر) وہ یہ سمجھ سکے کہ وہ کیا پڑھ رہا ہے۔
مذکورہ بالا روایت صحیح بخاری کے علاوہ صحیح مسلم، سنن ابی داود، سنن ترمذی ودیگر کتب حدیث میں بھی مروی ہے۔ مصنف عبد الرزاق میں ہے:
عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِذَا نَعَسَ أَحَدُكُمْ وَهُوَ يُصَلِّي فَلْيَنَمْ عَلَى فِرَاشِهِ؛ فَإِنَّهُ لَا يَدْرِي أَيَدْعُو عَلَى نَفْسِهِ أَمْ يَدْعُو لَهَا». (مصنف عبد الرزاق، كتاب الصلاة، باب الرجل يلتبس عليه القرآن في الصلاة)
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کسی کو نماز میں نیند آنے لگے تو اسے چاہیے کہ اپنے بستر پر آکر سو جائے، کیونکہ (اس حالت میں) اسے پتہ ہی نہیں چلے گا کہ وہ اپنے بارے میں دعا کر رہا ہے یا بددعا کر رہا ہے۔
شارحینِ حدیث نے اس حدیث کو صلاۃ اللیل پر محمول کیا ہے، چونکہ رات کے وقت نیند کا غلبہ ہوتا ہے، اس لیے صلاۃ اللیل کی ادائیگی کےلیے اس بات کا خیال رکھناضروری ہے کہ نیند کا خمار بالکل زائل ہوجائے، اس کے بعد نماز ادا کی جائے۔ جبکہ بعض حضرات اس حدیث کوعام قرار دیتے ہیں کہ یہ حدیث فرض اور نفل سب کے بارے میں ہے۔ اس صورت میں یہ وضاحت ضروری ہے کہ فرض نماز کی ادائیگی میں اگر کافی وقت باقی ہو تو غلبہ نیند کی صورت میں کچھ دیر آرام کرکے نماز پڑھ لے۔ اور اگر وقت تنگ ہورہا ہو اور نماز قضا ہونے کا خطرہ ہو تو اپنی پوری کوشش کرکے اپنے آپ سے نینداور سستی کو زائل کرکے نماز ادا کرے۔
ایک حدیث شریف میں ہے: عَنْ أَبِي قَتَادَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَيْسَ التَّفْرِيطُ فِي النَّوْمِ إِنَّمَا التَّفْرِيطُ فِي الْيَقَظَةِ». (مسند احمد، تتمة مسند الأنصار، حديث أبي قتادة الأنصاري)
حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تفریط (نماز میں کوتاہی) نیند میں نہیں ہے، تفریط تو بیداری میں ہوتی ہے۔
یعنی نیند میں اگر کسی شخص سے کبھی کوئی نماز فوت ہوجائے تو یہ تفریط نہیں کہلائے گی۔ تفریط یہ ہے کہ انسان جان بوجھ کر نماز میں اتنی تاخیر کرے کہ دوسری نماز کا وقت داخل ہوجائے۔ جیساکہ شرح المشکاۃ للطیبی میں ہے:
ليس التفريط في النوم، إنما التفريط في اليقظة: أن تؤخر الصلاة حتى يدخل وقت صلاة أخري. (شرح المشكاة للطيبي، كتاب الصلاة، باب مواقيت الصلاة)
اس سے نیند کو نماز پر فوقیت دینے کا وہم پیدا نہیں ہونا چاہیے، بلکہ مذکورہ حدیث میں تو نماز جیسے عظیم فریضے کو بہتر انداز میں خشوع وخضوع اور بھر پور توجہ کے ساتھ ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
باقی نمازوں کےلیے جو اوقات مقرر ہیں انہی اوقات مقررہ پر ہی نماز ادا کرنی چاہیے، حدیث شریف میں اسے اللہ تعالی کا سب سے پسندیدہ عمل قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
سَأَلْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم أَيُّ الْعَمَلِ أَحَبُّ إِلَى اللهِ قَالَ الصَّلاَةُ عَلَى وَقْتِهَا. (صحيح البخاري، كتاب الادب)
ترجمہ: میں نے نبی کریم ﷺ سے سوال کیا کہ اللہ تعالی کے ہاں سب سے محبوب عمل کیا ہے؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: نماز کو اپنے وقت پر ادا کرنا۔
مقررہ وقت کے اندر اندر کسی وقت بھی نماز پڑھی جائے تونماز ہوجائے گی اور وہ نماز ادا کہلائے گی۔ اس سے تاخیر کرنے پر نماز قضا ہوجائے گی۔ جان بوجھ کر نماز قضا کرنا یا رات کو دیر تک جاگتے رہنا جس کی وجہ سے نمازِ فجر کےلیے اٹھنا مشکل ہو اور نماز قضا ہوجائے تو یہ بہت بڑا گناہ ہے، اس سے بچنا چاہیے۔ کبھی کبھار اگر انسان پر نیند کا غلبہ ہوجائے یا بوجہ نسیان کے نماز رہ جائے تو بعد میں نماز پڑھ لینی چاہیے۔ حدیث شریف میں ہے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ أَثْقَلَ صَلَاةٍ عَلَى الْمُنَافِقِينَ صَلَاةُ الْعِشَاءِ، وَصَلَاةُ الْفَجْرِ، وَلَوْ يَعْلَمُونَ مَا فِيهِمَا لَأَتَوْهُمَا وَلَوْ حَبْوًا، وَلَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ آمُرَ بِالصَّلَاةِ، فَتُقَامَ، ثُمَّ آمُرَ رَجُلًا فَيُصَلِّيَ بِالنَّاسِ، ثُمَّ أَنْطَلِقَ مَعِي بِرِجَالٍ مَعَهُمْ حُزَمٌ مِنْ حَطَبٍ إِلَى قَوْمٍ لَا يَشْهَدُونَ الصَّلَاةَ، فَأُحَرِّقَ عَلَيْهِمْ بُيُوتَهُمْ بِالنَّارِ». (صحيح مسلم، كتاب المساجد ومواضع الصلاة، باب فضل صلاة الجماعة، وبيان التشديد في التخلف عنها)
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: منافقین پر عشاء اور فجر کی نمازیں سب سے زیادہ بھاری ہیں، اگر انہیں ان نمازوں پر ملنے والا اجر معلوم ہوجائے تو ان نمازوں کی ادائیگی کےلیے گھٹنوں کے بل چل کر آئیں۔ اور میرا دل چاہتا ہے کہ میں نماز کا حکم کروں اور نماز کھڑی ہوجائے اور پھر میں کسی کو جماعت کرانے کا حکم دے دوں اور خود کچھ ایسے لوگوں کو ساتھ لےکر جن کے پاس لکڑیوں کی گٹھڑی ہو ایسے لوگوں کی طرف نکل جاؤں جو جماعت میں(کسی شرعی عذر کے نہ ہونے کی صورت میں بھی) شریک نہیں ہوتے اور جا کر ان کے گھروں کو آگ لگادوں۔
والحديث عام فى كل صلاة من الفرض والنفل، وحمله مالك على صلاة الليل، وفى هذا الباب أدخله، وعليه جملة جماعة من العلماء، لأنه غالب غلبة النوم إنما هى فى الليل، ومن اعتراه ذلك فى الفريضة وكان فى الوقت سعة، لزمه أن يفعل مثل ذلك وينام، حتى يتفرغ للصلاة، وإن ضاق الوقت عن ذلك صلى على ما أمكنه وجاهد نفسه ودافع النوم عنه جهده. (إكمال المعلم بفوائد مسلم للقاضی عیاض، كتاب صلاة المسافرين، باب أمر من نعس فى صلاته…)
فإن النبي صلى الله عليه وسلم لما أوجب قطع الصلاة، وأمر بالرقاد دل ذلك على أنه كان مستغرقا في النوم، فإنه علل ذلك بقوله: (فان أحدكم) الخ، وفهم من ذلك أنه إذا كان النعاس أقل من ذلك، ولم يغلب عليه فإنه معفو عنه. (عمدة القاري شرح صحيح البخاري، كتاب الوضوء، باب الوضوء من النوم)
(وعن عائشة قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: “إذا نعس”) : بفتح العين ويكسر (“أحدكم”) : والنعاس أول النوم ومقدمته (“وهو يصلي”): جملة حالية (” فليرقد “): الأمر للاستحباب فيترتب عليه الثواب ويكره له الصلاة حينئذ، (“حتى يذهب عنه النوم”)، أي: ثقله (” فإن أحدكم “) : علة للرقاد وترك الصلاة (“إذا صلى وهو ناعس لا يدري”): مفعوله محذوف، أي: لا يعلم ماذا يصدر عنه، وما يقول من غلبة النوم. (” لعله “): استئناف بيان لما قبله (” يستغفر “) ، أي: يريد أن يستغفر (” فيسب “) : بالنصب ويجوز الرفع، قاله العسقلاني (” نفسه “) ، أي: من حيث لا يدري، قال ابن الملك، أي يقصد أن يستغفر بأن يقول: اللهم اغفر فيسب نفسه بأن يقول: اللهم اعفر، والعفر هو التراب فيكون دعاء عليه بالذل والهوان. اهـ. وهو تصوير مثال من الأمثلة، ولا يشترط إليه التصحيف والتحريف. (مرقاة المفاتيح، كتاب الصلاة، باب القصد في العمل)
وهذا الحديث شارك المؤلف في روايته أحمد [6/ 205] والبخاري [212] وأبو داود [1310] والترمذي [355] وابن ماجة [1/ 99 – 100]. قال النواوي: وفي الحديث الحث على الإقبال على الصلاة بخشوع وفراغ قلب ونشاط، وفيه أمر الناعس بالنوم أو نحوه مما يذهب عنه النعاس. (الكوكب الوهاج شرح صحيح مسلم بن الحجاج، كتاب الصلاة، باب كراهية التعمق في العبادة)